انقلابِ اسلامی کے بین الاقوامی معاشرے میں ثمرات:
انقلابِ اسلامی، ایران کی سرحدوں تک محدود نہیں رہا بلکہ پوری دُنیا پر اپنے اثرات چھوڑے۔جن میں سے بعض کا اختصار کے ساتھ یہاں پر ذکر کرنا مناسب ہے۔
جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں کہ انقلاب نے دنیا پر اپنے مثبت اثرات نہیں چھوڑے یا تو اُن کی معلومات میں کمی ہے اور اپنی لاعلمی کی بنیاد پر سطحی اورغیرسنجیدہ باتیں کرتے ہیں یا وہ کسی نفسانی اور روحانی بیماری کا شکار ہیں کہ اُنہیں روزِ روشن کی طرح واضح، انقلاب کے پوری دنیا پر اور بالخصوص عالم اسلام پر مثبت اثرات نظر نہیں آتے ہیں البتہ انقلاب کے دشمنوں نے اپنی پوری قوت لگائی ہے کہ اِس اسلامی انقلاب کو منفی رنگ دے کر محدود کر دیا جائے لیکن یہ انقلاب اسلامی کی کشش اور دلکشی ہے کہ جس نے دنیا کے تمام انسانوں بالخصوص منصف مزاج لوگوں کی توجہ کواپنی طرف مبذول کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
شیعوں سے مخصوص ثمرات:
شیعیان اہلبیت علیہم السلام مختلف گروہوں، طبقوں اوراقوام کے درمیان زندگی گزارا کرتے تھے اپنے وجود کا اظہارکرنے میں اُنہیں مشکلات اور معاشرتی مسائل کا سامنا تھا کیونکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں شیعیان اہلِ بیت ؑکی طرف مختلف تہمتوں کی نسبت دی جاتی رہی ہے اور اِن وسیع پروپیگنڈوں سے مقابلے کا امکان بھی بہت سخت تھا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد شیعوں نے تمام قوموں کے درمیان عزت و سربلندی کا احساس کیا اور یہی عزت ہے جو انقلاب کے ثمرات میں سب سے زیادہ نمایاں نظرآتی ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی، تشیع کی حقیقی اور خاندانِ رسالت سے حاصل کی گئی تعلیمات سے عالمی طور پر آشنائی کا باعث بنی اور تمام اقوام بالخصوص مسلمان اقوام کی تشیع کی طرف توجہ اورآشنائی میں رغبت کاسبب بنی۔ ان شاء اللہ دنیا کی اقوام بالخصوص مسلمان اقوام کا مکتبِ اہلِ بیت علیہم السلام کی طرف بڑھتی ہوئی توجہ اورآشنائی، عالمی عادلانہ حکومت یعنی امام زمان مہدیِ موعودؑ کے ظہور اور اُس مثالی عادلانہ حکومت کے لیے زمینہ ہموار کرنے کا سبب بنے گی۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور عصرِ حاضر کے مستکبرین اور طاغوتوں کی دن بدن ذلت و رسوائی اور مقاومت کے محاذ کی ولایت کے زیر سایہ مسلسل کامیابیاں اور دنیا میں مقاومت کے اُصولی موقف کی تائید اورعالمی طاقتوں کی دوغلی پالیسیاں اور اُن کے مذموم عزائم اوراُن کے انسانیت دشمن کارناموں کا دنیا کی عوام اور باضمیر طبقے کے سامنے آجانا اُس عالمی عادلانہ حکومت کا پیش خیمہ دکھائی دے رہا ہے۔
تمام مسلمانوں سے مخصوص ثمرات:
انقلاب اسلامی کی کامیابی نہ فقط تشیع کی عزت کا سبب بنی بلکہ تمام مسلمانوں کی عزت و سربلندی کا سبب بھی بنی۔ انقلابِ اسلامی سے پہلے اکثر مسلمان مغربی ممالک میں اورعیسائیوں کی محفلوں میں اپنے مسلمان ہونے پر شرم محسوس کرتے تھے۔ بالخصوص اگر کوئی شرعی احکام مثلاً نماز، روزہ اور دوسرے واجبات کا پابند ہو تو اُس پر قدامت پسند ہونے کی تہمت لگائی جاتی تھی؛ لیکن الحمداللہ انقلاب اسلامی کی کامیابی نے مسلمانوں کے اندر اپنے مسلمان ہونے پر فخر کا احساس پیدا کیا کیونکہ انقلاب اسلامی نے مغربی دُنیا کے سامنے یہ ظاہر کردیا کہ خالص محمدیؐ اسلام میں یہ قوت و صلاحیت پائی جاتی ہے کہ جدید دنیا کی مشکلات اور اُس کی ضروریات کو پورا کرسکے اور ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انقلابِ اسلامی نے مسلمانوں کویہ حوصلہ اور پیغام دیا کہ قرآن مجید اور تعلیمات ِاسلامی فقط چودہ سوسال پہلے تک محدود اورچند شرعی احکامات اور اخلاقی نصیحتوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اسلامِ حقیقی، رہتی دنیا تک ایک ضابطۂ حیات اور نظام کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس کی پیروی میں ہی انسانیت کی نجات اور فلاح پائی جاتی ہے۔
نائجیریا کے مسلمان اورمبارزعالمِ دین شیخ زکزاکی اِس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ انقلاب سے پہلے جب کمیونسٹ افراد یہ سوال کرتے تھے کہ عصر حاضر میں اسلام کے عملی نفاذ کی آپ کے پاس کیا مثال ہے؟ تومیں اِس سوال کاجواب دینے سے قاصر رہتا تھا۔ انقلاب کی کامیابی اوراسلامی حکومت کی تشکیل نے میرے اِس حل نہ ہونے والے سوال کا جواب دے دیا‘‘۔ یہ عظیم الشان اسلامی انقلاب، فقط ایران کے مسلمانوں کی کامیابی نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی کامیابی ہے اِسی لیے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں اسلام کی طرف رغبت بڑھ رہی ہے۔
اس کے علاوہ اسلامی انقلاب نے استعمار کی دُکھتی رگ یعنی اسرائیل کے خلاف برسرِ پیکار تحریکوں کی بلا تفریق پشت پناہی کی اوراُن کے مردہ اجسام میں نئی روح پھونک دی۔ بوسینیا ہرزگوینا کے مسلمانوں پر مظالم کا مسئلہ ہو یا کشمیر کے مظلوم عوام پر مظالم کا معاملہ ہو یا دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں اُن مسلمانوں کی ایک مضبوط آواز بن کر سامنے آیا؛ نہ فقط آواز بن کر سامنے آیا، بلکہ عملی طور پر اُن کی مدد بھی کی۔
اس کے علاوہ حال ہی میں مسلمانوں کا بدنما اور مکروہ چہرہ پیش کرنے والے طالبان اور داعش جو اپنے استعماری آقاؤں کے اشارے پر اسلام اورمسلمانوں کا مہرباں چہرہ خراب کرنے کی پوری منصوبہ بندی کرچکے تھے لیکن اِسی اسلامی انقلاب کی بصیر ت اور بر وقت اقدامات نے دُشمن کی تمام سازشیں خاک میں ملادی اوردشمن کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا۔ اور تمام عالمی دُشمنوں اور اُن کے کٹھ پتلی عناصر نے عملی طور پر اپنی ذلت آمیز شکست کا اعتراف بھی کیا۔
مختلف آسمانی ادیان کے حامیوں سے مخصوص ثمرات:
انقلاب اسلامی ایران نے اسلام اور مسلمانوں کی عزت و وقار کی بحالی کے ساتھ ساتھ دوسرے آسمانی ادیان میں بھی ایک نئی روح پھونکی؛ حتیٰ یورپ کے صدور مثلاً آسٹریا کا سابق صدر کُھل کر اعتراف کرتا ہے کہ امام خمینیؒ کی تحریک کے بعد وہ لوگ بھی اپنے دیندارہونے پر فخر کرتے ہیں۔ اِسی طرح بعض عیسائی پوپ بھی کُھل کر اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایران میں امام خمینیؒ کی تحریک نے اِنہیں جرأت عطا کی ہے کہ وہ بھی کھل کر عیسائیت اور اصلِ دین اورخدا پر ایمان کے حوالے سے گفتگو کریں۔
کمیونسٹ آئیڈیالوجی کے مطابق دین افیون اوراقوام کوغافل اورسست کرنے کاسبب بنتاہے۔ انقلاب اسلامی ایران سے پہلے پچاس سے زیادہ ممالک کمیونسٹی آئیڈیالوجی رکھتے تھے؛ انقلاب اسلامی کے بعد اُنہیں اِس سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ کیوں ایران میں دین افیون ثابت نہیں ہوا؟ انقلاب اسلامی کی کامیابی نے اِس نظریے اورآئیڈیالوجی کو باطل ثابت کردیا۔ اور یہ واضح کردیا کہ خالص اور تحریفات سے پاک دین، اقوام میں ایک حرارت پیدا کرتا ہے اور اُنہیں مادّی اور روحانی دونوں لحاظ سے کمال کی طرف گامزن کرسکتا ہے۔ تیس سے زیادہ ممالک میں جہاں پر مساجد اورعبادت خانے بنانے پر پابندی عائد تھی، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد وہ پابندیاں ہٹانے پر مجبور ہوگئے۔
ظہور کے علائم کے بجائے، ظہور کے اسباب وعوامل پر تاکید:
مہدی موعود امام زمانؑ کے ظہور کی علامات اور نشانیوں کے حوالے سے بہت ساری روایات پائی جاتی ہیں، یہ نشانیاں یقینی اور غیریقینی میں تقسیم ہوتی ہیں، جن میں ایک خاص حکمت اور فلسفہ پایا جاتاہے، لیکن ہمارے لیے آج جو چیزضروری ہے وہ ظہورکی علامات اور نشانیاں نہیں ہیں بلکہ ظہور کے لیے اسباب اور راہ ہموار کرنا ہے۔ کیونکہ امام مہدیؑ کے عالمی قیام کے لیے عالمی طور پر آمادگی ضروری ہے۔ اسلامی انقلاب نے امام زمانہؑ کے ظہور کے اسباب مہیا کرنے اور اُس الہی عالمی عادلانہ حکومت کے لیے مقدمہ فراہم کردیا ہے لیکن اِس انتظار کے سفر کو طے کرنے کے لیے مزید مراحل باقی ہیں، جنہیں طے کرنے کی ضرورت ہے۔
ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ ’’ہم اسلامی انقلاب لے آئیں اور اُس کے بعد اسلامی نظام تشکیل دیا۔ اِس کے بعد کا مرحلہ ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ (یعنی حکومت کواسلامی بنانے کا مرحلہ) اور اُس کے بعد کا مرحلہ اسلامی ملک کی تشکیل کا مرحلہ ہے (یعنی پورے ملک کو اسلامی بنانے کا مرحلہ) اوراُس کے بعد کا مرحلہ عالمی اسلامی تہذیب وتمدن کی تشکیل کا مرحلہ ہے۔ [1]
الحمد للہ انقلابِ اسلامی اپنے رُشد و ترقی کے مراحل، دنیا کی تمام سپر طاقتوں کی پابندیوں اور مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باجود بھی ولایت فقیہ کے زیرسایہ تیزی سے طے کر رہا ہے اوروہ وقت دُور نہیں کہ انقلاب اسلامی کا یہ مقدس پرچم اِس انقلاب کے حقیقی ولیؑ اور عالَمِ انسانیت کے مسیحا امام زمانہؑ کے دستِ مبارک تک پہنچے اور ایک عالَمی عادلانہ حکومت کی دیرینہ انسانی اور الہی آرزو، عملی جامہ پہنے اور مستضعفین کی حکومت کا الہی وعدہ پورا ہوجائے۔ ان شاء اللہ
[1] ۔ولی امرِ مسلمین سیدعلی خامنہ ای ،خطاب؛ 200427/10/