آلِ سعود کی حقیقت، تاریخ کے آئینے میں | تیسرا حصہ | آلِ سعود کا انگریز استعمار کیساتھ گٹھ جوڑ
ایشیاء اور اس سے متعلقہ علاقے قدرتی ذخائر سے مالا مال ہونے کی وجہ سے ابتداء ہی سے یورپی غاصب طاقتوں اور عالمی لٹیروں کی توجہات کا مرکز رہے ہیں، یورپی حکومتوں اور یہودی منصوبہ سازوں کو جب بھی موقع ملا انہوں نے اس خطے کی دولت و ثروت کو لوٹنے کیلئے مختلف سازشیں تیار کیں، حکومتیں اُلٹیں اور من پسند افراد کو بر سر کار لاکر عوامی امنگوں کا گلہ گھونٹ کر قوموں کی دولتوں کی لوٹ مار مچائی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ غاصب حکومتیں نا فقط مسلمانوں کے مد ّمقابل آئی ہیں بلکہ اپنے منافع کی تکمیل کیلئے خود آپس میں جنگیں لڑ کر ایک دوسرے کیخلاف سازشں کا جال بھی بچھاتے رہے ہیں، یہ سازشیں اور جنگیں 20 ویں صدی کے اوائل میں اس وقت اپنے اوج پر پہونچ جاتی ہیں جب انگریز استعماری قوتیں اپنے سیاسی اور اقتصادی منافع کی خاطر ایشیاء میں داخل ہو جاتی ہیں، عراق اور خلیج فارس میں جرمن استعمار کی پھیلتی ہوئی سرگرمیاں انگریزی استعمار کو اس خطے میں مستقیم مداخلت پر مجبور کرتی ہے اور یوں انگریز حکومت اپنے مفادات کے دفاع کی خاطر 1904 عیسوی میں جرمن استعمار کا مقابلہ کرنے کیلئے فرانسیسی اور روسی استعمار سے اختلافات کو ختم کر دیتی ہے اور ان دو حکومتوں سے ملکر جرمن طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد کا اعلان کرتی ہے۔
1907 عیسوی میں برطانیہ اور روس نے ایشیاء سے جرمن اثرونفوذ کے خاتمہ کیلئے ، آپس میں طے کئے گئے معاہدہ کے تحت ایران اور اپنے زیر قبضہ دوسرے ممالک میں اقتدار کی بندر بانٹ انجام دی، اسی بندر بانٹ میں برطانوی حکومت اپنے زیر قبضہ علاقہ کی امنیت و اقتدار کی سلامتی کیلئے عرب و حجاز میں اپنے ہم خیال ایک مضبوط مرکز کے خیال میں پڑ گئی، اس مقصد کیلئے برطانوی حکومت نے عثمانی خلافت کو کمزور کرنے اور حجاز میں اپنی حامی ایک حکومت کی تشکیل کیلئے عثمانی حکومت کے نمایندہ حکمران، حاکم حجاز حسین شریف مکہ کیساتھ ساز باز کی اور اقتدار کا لالچ دیکر اس کو عثمانی سلطنت کیخلاف بغاوت پر آمادہ کرلیا،کیونکہ جب تک عثمانی خلافت ختم یا کمزور نہیں ہوتی، برطانیہ سمیت کسی بھی استکباری طاقت کا اس حساس خطے پر کنٹرول ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عثمانی خلافت اپنے حکمرانوں کی تمام تر غفلت اور غیر اسلامی سیاست و روش کے علاوہ ،سلطنت کے مختلف حصوں میں ابھرتی بغاوتوں اور شورش کا سامنا کرنے میں مصروف تھی لہذا حجاز پر حاکم عثمانی سلطنت کے نمایندے برطانوی سازشوں کا شکار ہو کر سلطنت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہوگئے اور یوں برطانوی حمایت سے برسراقتدار آکر عثمانی خلافت میں ایک اور دراڑ کا باعث بنے، ان ساری سیاستوں کے درمیان سعودبن محمدبن مِقْرِن بن مَرْخان بن ابراہیم (جد امجد آل سعود) حالات کا فائدہ اٹھا کر عرب علاقہ ’’درعیّہ‘‘ میں اپنی چھوٹی سے حکومت بنانے میں مصروف تھا، اس کے مرنے کے بعد اسکے بیٹے محمد ابن سعود نے وہابیت کی بنیاد رکھنے والے برطانوی ایجنٹ’’محمد ابن عبدالوہاب‘‘ کے ساتھ وفاداری کا معاہدہ کر لیا اور ہر موقع پر ایک دوسرے کی مدد و نصرت کی قسم کھائی گئی، معروف تاریخ نویس احمد ابن زینی دہلان بیان کرتا ہے:’’ محمد بن عبدالوہاب نے درعیّہ کے حاکم محمد ابن سعود کی حمایت کرکے اس علاقہ میں اپنا اثر و نفوذ ، مکہ مکرمہ تک بڑھا دیا،جبکہ اس سے پہلے وہ درعیّہ اور اسکے اطراف کے رہنے والوں کو اپنی بیعت میں لے چکا تھا، یہاں تک کہ عربوں کے معروف افراد گروہی صورت میں آکر عبدالوہاب کی حمایت و اطاعت کر رہے تھے، عبدالوہاب بھی کیونکہ ان صحرا نشین عرب بدوؤں سے خوفزدہ تھا لہذا جو بھی آتا اسکو توحید کی دعوت اور شرک سے دوری کی نصیحت کرکے اپنا ہمدرد بنایا کرتا تھا،کیونکہ خود ایک مصلح کے روپ میں نمودار اور عوام میں معروف ہوا تھا لہذا اپنی بیعت کرنے والوں کے علاوہ باقی تمام افراد حتیٰ مسلمانوں کو کافر اور مشرک قرار دے رہاتھا، ابن سعود نے تقریبا ۳۰ وہابی علماء پر مشتمل ایک وفد کو مکہ مکرمہ بھیجا، ظاہرا مناسک حج کو بجالانے آئے تھے لیکن ان کا درپردہ مقصد عوامی حمایت و بیعت کا حاصل کرناتھا،لیکن جب یہ گروہ مکہ پہونچا تو امیر مکہ نے ان کو مناظرہ کی دعوت دے ڈالی اور یوں مناظرے کی مدد سے انکے انحرافی عقاید سے پردہ اٹھایا، اس واقعہ کے بعد امیر مکہ نے ان سب کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا، جسکے نتیجہ میں ان میں سے بعض افراد گرفتار کرلئے گئے اور بعض فرار ہوگئے،
ریاض کا حاکم جس کا نام ’’دہام ابن دواس‘‘ تھا، وہابیت کا سخت دشمن تھا، اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاض اور درعیّہ کے درمیان ۲۷ سال میں کئی خونی جنگیں لڑی گئیں کہ جس میں محمد ابن سعو دکے دو بھائی فیصل اور سعود بھی مارے گئے، محمد ابن سعود کی موت کے بعد اس کا سفاک بیٹا عبدالعزیز ابن محمد ابن سعود جو محمد ابن عبدالوہاب کا داماد بھی تھا، ابن وہاب کی مدد سے درعیّہ کا حاکم بن گیا اور اپنے باپ کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں کی جان و مال کی بربادی کا باعث بنا۔[1]
عبدالعزیز ابن محمد ابن سعود نے عرب علاقہ ’’احساء‘‘ پر حملہ کرکے وہاں کے مسلمانوں کی جان و مال کو برباد کر ڈالا اور اقتدار کی لالچ و محمد ابن عبدالوہاب کے فتوؤں نے مسلمان کے خون کو حلال کر دیا تھا۔اس واقعہ و معروف عرب تاریخ نگار’’ابن بشر‘‘ نے کچھ یوں نقل کیا ہے:
’’نجد کے امیر نے نماز صبح کے بعد احساء کی طرف کوچ کا حکم دیا، جب اسکی مسلح افواج احساء کے نزدیک پہونچیں تو فوجیوں نے گھوڑوں کی زین پر کھڑے ہوکر ایک ساتھ بندوقوں سے فائرنگ شروع کردی، جس سے خوفزدہ ہوکر بہت ساری حاملہ عورتوں کے حمل سقط ہوگئے اور احساء شہر فتح کرلیا گیا،اسکے بعد امیر نجد شہر میں داخل ہوا اور جس کو چاہا قتل کیا، جسکو چاہا شہر بدر کیا اور جسکو چاہا زندان میں ڈلوا دیا، احساء کی عوام پر سنگین قسم کا جزیہ اور ٹیکس عائد کئے اور ادا نہ کرنے کی صورت میں کئی جوانوں کو قتل کرادیا،’’وضرب عليهم ألوفاً من الدراهم و قبضها منهم و ذلک لما تکرّر منهم من نقض العهد و منابذةالمسلمين و أکثر منها القتل‘‘ اور اسکے بعد ’’ناجم‘‘ نامی شخص کو اپنی جانب سے احساء کا حاکم بنا کرواپس نجد چلا گیا۔[2]
محمد ابن عبدلوہاب کی تعلیمات سے متاثر اسی عبدالعزیز ابن محمد ابن سعود نے 1216 ہجری قمری میں عراق پر حملہ کیا اور جب کربلا پہونچا تو محاصرہ کرلیا اور شہر میں داخل ہونے کے بعد عوام کا بُری طرح سے قتل عام کیا، عورتوں ، بچوں اور مردوں کو شہید کر ڈالا، امام حسین علیہ السلام کے حرم مطہر کا سارا خزانہ لوٹ لیا اور ضریح اقدس کو شہید کرکے حرم مطہر کی قیمتی اشیاء لوٹ کر لے گیا،لبنان سے تعلق رکھنے والی اس واقعہ کے عینی شاہد آیت اللہ سید جواد عاملی نےبھی اس واقعہ کو بیان فرمایا ہے۔[3]
بعض تواریخ میں یہ بھی نقل ہواہے کہ عید غدیر کے موقع پر جب کربلا اور سارے عراق سے شیعہ مسلمان نجف اشرف میں جمع ہوکر جشن غدیر منایا کرتے تھے، عبدلعزیز کی وہابی افواج نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جوانوں کی غیر موجودگی میں کربلا میں رہ جانے والے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا قتل عام کیا اور شہر بھر میں لوٹ مار کرکے فرار ہوگئے، ایک اندازہ کےمطابق فقط ایک دن میں ۳ ہزار افراد کا قتل عام کیا گیا۔[4]اور ایک اور قول کے مطابق ایک دن میں ۵ ہزار افراد کو تہ تیغ کیا گیا۔[5]
یہودی نسل کی یہ شر انگیزیاں جاری رہیں اور یہانتک کہ 1902 عیسوی میں عبدالعزیز ابن عبدالرحمان جو ابن سعود کی کنیت اور ’’صحرائی شاہین‘‘ کے لقب سے مشہور تھا۔[6]اس نے 20 سال کی عمر میں ریاض پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا اور یوں پہلی بار ’’ آل سعود‘‘ کے عنوان سے حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس فتح اور حکومتی بنیادوں کا سہرا اٹھارہویں صدی کے شیخ محمد ابن عبدالوہاب کو بھی جاتا ہے کیونکہ اسکے پیروکاروں نے ہمیشہ محمد ابن عبدلوہاب اور محمد ابن سعود کے درمیان ہونے والے معاہدہ کا احترام کیا اور ہر مشکل وقت میں آل سعود کی پشت پناہی کی ہے، جواب میں آل سعود نے بھی اسی محمد ابن عبدلوہاب کی تعلیمات کا پاس رکھا اور اسکے عقائد کے مروج بن کر نجد و حجاز میں اسکے فتوؤں پر مبنی شریعت کا نفاذ کیا ہے، آل سعود اور برطانوی ایجنٹ’’محمد ابن عبدالوہاب‘‘ کا یہ گٹھ جوڑ آج بھی جاری ہے، محمد ابن عبدالوہاب کی اولاد و پیروکار آج بھی سعودی عرب کے شرعی، ثقافتی اور عدالتی سسٹم کو چلانے والے اور جواب میں آل سعود کی پشت پناہی کرنے والے ہیں، دوسری جانب آل سعود بھی ہمیشہ کی اس حمایت کے صلہ میں انکے مفادات کا خیال اور انکے نظریات کا پرچار کرتی ہے۔
https://bit.ly/2DXpEQb – [1]
[2] ۔ عنوان المجد، ج1، ص105
[3] ۔ مفتاح الکرامۃ، ج5، ص512
[4] ۔ تاريخ البلاد العربیۃ، ص126
[5] ۔ موسوعۃالعتبات، ج8، ص273
[6]۔ صقرالجزیرة، احمد عبدالغفور عطار