ابولآئمہ امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کادِن درحقیقت انسانیت کی تاریخ میں ایک بے مثال شخصیت کی ولادت کادِن ہے۔کوئی دوسری شخصیت ،عظمت کے لحاظ سے رسولِ خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے برابر نہیں ہے۔آپ ؑکی ولادت کادِن تمام مسلمانوں بلکہ تمام مظلوموں، عدالت پسندوں اور حریت پسندوں کے لیے عید کادِن ہے۔اور عظیم الشان عیدکا دِن ہونے کے ساتھ ساتھ درس کادِن بھی ہے ۔ہمیں امام المتقین امام علی علیہ السلام کی مبارک ،پاکیزہ ونورانی زندگی سے درس لینا چاہیے، اگرہم آپ کی زندگی طیبہ سے درس لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تویہ ہمارے لیے اِس عیدکی سب سے بڑی عیدی ہوگی۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام کی عظیم الشان شخصیت آپؑ کی ولادت سے لے کر شہادت تک کےتمام مراحل میں ایک غیر معمولی شخصیت ہے۔جن کی ولادت کعبے میں ہوتی ہے جس کااعزازنہ آپ سے پہلے کسی کوحاصل تھااورنا ہی بعدمیں کسی کوحاصل ہوا،اورآپ علیہ السلام کی شہادت بھی مسجدمیں،محرابِ عبادت میں ہوتی ہے۔ ولادت اورشہادت کے درمیان آپ کی تمام زندگی جہادفی سبیل اللہ،خداکی رضاکی خاطر ، صبرواستقامت،بصیرت اورخداکی رضاکے حصول کے لیے مسلسل حرکت وجدوجہدپر مشتمل ہے۔
بچپن کے آغازسے ہی حکمت وتدبیرِالہٰی سے امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام، حبیبِ خدا حضرت محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ آجاتے ہیں۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام جب چھ سال کے تھے توپیغمبرِخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آپؑ کوجنابِ ابوطالبؑ کے گھرسے اپنے گھرلے آتے ہیں اورپھر زندگی کے تمام مراحل میں اپنے ساتھ رکھتے ہیں اورآپ علیہ السلام بھی ہمیشہ پیغمبرِخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس وجودسے کسب ِ فیض کرتے ہیں۔
غارِ حرامیں پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے نزول کے دوران امام علی علیہ السلام ہی تھے جو اِن اہم ترین اورحساس لمحات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے ۔امام علی علیہ السلام اِس بارے میں فرماتے ہیں: وَ لَقَدْ کُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّباعَ الْفَصِیلِ أَثَرَ أُمِّهِ، یَرْفَعُ لِی فِی کُلِّ یَوْمٍ مِنْ أَخْلاقِهِ عَلَماً، وَ یَأْمُرُنِی بِالاقْتِداءِ بِهِ۔’’میں ہمیشہ اونٹ کے بچے کی طرح جو اپنی ماں کے پیچھےچلتاہے آپؐ کے پیچھے پیچھے چلاکرتاتھا اورآپؐ ہرروز پسندیدہ ومحبوب صفات میں سے ایک صفت میرے لیے نمایاں فرماتے تھےاورمجھ سے فرماتے تھے کہ آپؐ کی پیروی کروں۔[1]
امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام ہمیشہ پیغمبر خداؐ سے پیوستہ اورآپؐ کے الہی و نورانی مقدس وجود سے کسب ِفیض فرماتے تھے۔ایک جگہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیْطانِ حِینَ نَزَلَ الْوَحْیُ عَلَیْهِ صَلّی اللّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ، ’’میں نے پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتے وقت شیطان کی چیخ وپکار سُنی اورپیغمبرِ اکرمؐ سے دریافت فرمایا: فَقُلْتُ یا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الرَّنَّةُ؟ ’’یارسول اللہ یہ کیسی آواز تھی جومیں نے سُنی؟». پیغمبرِ اکرمؐ فرمانے لگے:هذَا الشَّیْطانُ قَدْ أَیسَ مِنْ عِبادَتِهِ، خَیْرٍ۔یہ شیطان کی فریادہے کیونکہ وہ اپنی عبادت کئے جانے سے مایوس ہوچکاہے ۔اِس کے بعد آپؐ فرماتے ہیں : إِنَّکَ تَسْمَعُ ما أَسْمَعُ، وَ تَری ما أَری إِلاَّ أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیِّ وَ لکِنَّکَ لَوَزِیرٌ، وَ إِنَّکَ لَعَلی خَیْرٍ ۔ “جو کچھ میں سُنتاہوں تم بھی سنتے ہو اورجو کچھ میں دیکھتاہوں تم بھی دیکھتے ہومگریہ کہ تم پیغمبر نہیں ہولیکن میرے وزیرہواورتم خیر(نیکی) کے راستے پر چلوگے۔[ 2]
امام علی علیہ السلام کے روحانی مقامات ،امیرالمؤمنین کی توحیدی معرفت،آپؑ کی عبادت کا مقام،خداکی بارگاہ میں تقرب کا مقام اورآپؑ کے اخلاص کامقام ،امام علیہ السلام کے اِن مقامات کی گہرائی تک پہنچنا ہماری پہنچ اورطاقت سے باہر ہے۔تمام شیعہ وسنی مسلمان علماء نے حتیٰ غیر مسلم مفکریں نےامیرالمؤمنین علیہ السلام کی شخصیت کو مکمل طور پر سمجھنے سے اپنی عاجزی اورناتوانی کااظہار کیاہے۔ابن ابی الحدید سنی معتزلی عالِم جب توحید سے متعلق امام علیہ السلام کے خطبوں کا مطالعہ کرتاہے توکہتاہے کہ یہ حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کے لیے حضرت علیؑ جیسے فرزند کے ہونے پر فخر کامقام ہے۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی نسل سے اتنے سارے انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں لیکن ابن ابی الحدید فقط امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ جملے کہتاہے۔
مولائے متقیان امام علی علیہ السلام کی زندگی کا دوسراپہلو آپ ؑ کی مجاہدت اورانسانی طاقت سے بالاتر جہاد ہے۔آپ علیہ السلام کی یہ فداکاریاں اورقربانیاں اپنی بلندی اور عروج پر نظر آتی ہیں۔امیرالمؤمنین نے اسلام کی حفاظت کے لیے، پیغمبرِ اکرمؐ کی جان کی حفاظت کے لیے اور اسلامی امت کے شرف اورعظمت کے لیے بے انتہاقربانیاں دیں، ایسی قربانیاں جو انسانی طاقت سے بالاتھیں۔ہجرت سے پہلے کے واقعات ہویاشب ہجرت کاواقعہ ہو یا ہجرت کے بعد مدینے میں آپ کی قربانیاں ہوں یا پیغمبرِ خداؐکی رحلت کے بعد کے واقعات ،مولائے متقیانؑ کا صبر و استقامت ہو یا آپ ؑ کے اسلام کی بقا کی خاطر اپنے زمانے کے خلفاء سے تعاون کا معاملہ ہو جو خود ایک بہت بڑی قربانی کے زمرے میں شمارہوتاہے،اوراِسی طرح لوگوں کے شدید اصرار پر خلافت کا قبول کرنا بھی ایک بہت بڑی قربانی تھی اوراِسی طرح خلافت کے دوران جو کام انجام دئیے اورجو اقدامات آپؑ نے اُٹھائے یہ سب یکے بعد دیگرے آپ علیہ السلام کی مسلسل فداکاریاں تھیں۔
مولاعلی علیہ السلام نے پیغمبراکرم کے ساتھ نمازپڑھی،پیغمبراکرمؐ کے ساتھ جہاد کیا،پیغمبراکرمؐ کے لیے قربانیاں دیں۔اپنی زندگی کے تمام لمحات میں خواہ پیغمبراکرمؐ کی زندگی میں ہوں، خواہ اُن کی رحلت کے بعد ہو مختلف زمانوں میں حق کو قائم کرنے کے لیے،دین خداکونافذ کرنے کے لیے ،اسلام محمدیؐ کی حفاظت کے لیے اپنی تمام تر کوششوں اور توانائیوں کو بروئے کار لائیں۔
شیعہ اورسُنی روایات میں نقل کیا گیاہے کہ امام علی علیہ السلام کو پیغمبرِاکرم ؐنے حق کا معیارومیزان قراردیاہے آپ ؐ نے فرمایا: عَلِيٌّ مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ يَدُورُ حَيْثُمَا دَارَ۔’’علیؑ حق کے ساتھ ہے اورحق علیؑ کے ساتھ ہے،حق علی ؑکے اردگردگھومتاہے‘‘۔یعنی اگر آپ حق کی تلاش میں ہیں تویہ دیکھیں کہ علی ؑ کہاں کھڑے ہیں،علیؑ کی انگلی کا اشارہ کس طرف ہے،علیؑ کاکیامؤقف ہے ۔ [3]
ہمیں نہج البلاغہ کامطالعہ کرنا چاہیئے ،عصرِ حاضر میں بہت سارے غیر مسلمان مفکریں اوردانشورحضرات، نہج البلاغہ سے آشنا ہیں اورامیرالمؤمنینؑ کے حکیمانہ کلمات سے استفادہ کرتے ہیں اوراِن کلمات کی عظمت اوربلندی دیکھ کر ششدر و حیران رہ جاتے ہیں۔ہمیں چاہیئے کہ نہج البلاغہ کے مطالعے کا خصوصی اہتمام کریں اوراُسے اپنے معاشرے میں رائج کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔امیرالمؤمنین صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہیں، اہل سنت علماء نے امام علی علیہ السلام کے حوالے سے ایسی اصطلاحات اورالفاظ کا استعمال کیا ہے کہ جو انسان کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔جو کوئی بھی مسلمانوں میں سے اسلام کا حقیقی عاشق ہے وہ علمی لحاظ سے ،روحانی اورمعنوی لحاظ سے اوراخلاقی اورانسانی لحاظ سے امیرالمؤمنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کی نورانی شخصیت کو عظمت کی بلند ترین چوٹی پر دیکھ سکتا ہے۔[4]
[1] ۔(نہج البلاغہ،خطبہ قاصعہ)
[ 2] ۔(نہج البلاغہ،خطبہ قاصعہ)
[3] ۔( لأمالي (للصدوق)، ص 89؛ الجمل، ص 81؛ الأمالي (للطوسي، المستدرک علی الصحيحين، ج 3، ص 135)
[4]۔ولی امرمسلمین کے خطاب سے اخذشدہ June 26, 2010