آلِ سعود کی حقیقت، تاریخ کے آئینے میں    |     چوتھا  اور آخری حصہ

آل سعود کے  انگریزوں کے ساتھ  شرمناک معاہدے
معروف دیوبندی عالم دین اور مشہور  مفتی جناب سرفراز خان صفدر  کے فرزند جناب راشد الخیری  نے اپنے ایک مقالہ ، جس کا نام ہی ’’ سلطنت  برطانیہ اور آل سعود کے درمیان معاہدہ‘‘تھا ، اس میں  وہ  خود برطانیہ کی استعماری حکومت اور آل سعود کے درمیان طے کئے جانے والے اس  شرمناک معاہدہ  اور حتیٰ اس کی شقوں کو بیان کرتے ہوئے خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ  برطانوی حکومت نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کیلئے آل سعود کو استعمال کیا اور اس مقصد کیلئے باقاعدہ ایک معاہدہ تحریر کیا گیاقابل ذکر یہ ہے کہ یہ مقالہ  ’’روزنامہ اوصاف‘‘ میں بھی نشر ہو چکا ہے[1] ۔موصوف فرماتے ہیں:

’’پہلی جنگ عظیم کے دوران خلافت عثمانیہ کو جرمنی کی حمایت کی سزا دینے اور اس بہانے سے اس کا وجود ختم کرنے کے لیے حکومت برطانیہ نے عرب ممالک کو خلافت عثمانیہ سے باغی کرنے کا پروگرام بنایا۔ اور خلافت عثمانیہ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے والی حسین بن علی کو، جسے شریف مکہ کہا جاتا تھا، اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ اگر وہ خلافت عثمانیہ سے بغاوت کا اعلان کر دے تو اسے پوری عرب سرزمینوں  کا بادشاہ بنا دیا جائے گا اور ترک خلیفہ کی بجائے اس کے سر پر خلیفۃ المسلمین کا تاج رکھ دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے شریف مکہ کے بیٹے امیر عبد اللہ اور برطانوی نمائندہ لارڈ کچر کے درمیان 1915ء میں قاہرہ میں باقاعدہ معاہدہ طے پایا جس کے مطابق شریف مکہ نے خلافت عثمانیہ سے بغاوت کر کے میدان جنگ میں ترک فوجوں کو شکست دی۔ لیکن جب ترک فوجیں شکست کھا کر پسپا ہوگئیں اور عرب ممالک سے خلافت عثمانیہ کا اقتدار ختم ہوا تو انگریزوں نے شریف مکہ حسین بن علی کو عرب دنیا کا بادشاہ تسلیم کرنے کی بجائے اس کے بیٹے امیر عبد اللہ کو دریائے اردن کے کنارے پر ایک پٹی کا بادشاہ بنا دیا جو اردن کی مملکت ہاشمیہ کے نام سے معروف ہے۔ اور اردن کے موجودہ بادشاہ عبد اللہ اسی امیر عبد اللہ کے پڑپوتے ہیں۔ جبکہ حجاز مقدس میں آل سعود کو آگے بڑھایا جو اس سے پہلے فقط  نجد اور اس کے اطراف کے حکمران تھے، انہوں نے شریف مکہ حسین بن علی کو شکست دے کر حجاز مقدس پر قبضہ کیا اور سعودی مملکت قائم کر لی۔ ‘‘

شریف مکہ کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کی فوجوں کی شکست کے بعد آل سعود کے اچانک آگے بڑھنے اور اس سے حجاز مقدس کا کنٹرول چھین لینے سے عام مسلمانوں کو یہ اطمینان ہوا کہ ایک غدار کو اپنے جرم کی سزا مل گئی ہے اور اس کی جگہ حجاز مقدس ایک مذہبی اور دیندار خاندان کی تحویل میں آگیا ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ تھی کہ اس خاندان کے پیچھے بھی برطانوی حکومت تھی اور اس کی منصوبہ بندی کے مطابق اس سارے ڈرامے کی تکمیل ہوئی۔

سعودی مملکت قائم ہونے کے بعد اس کی طرف سے مزارات اور مقابر کے انہدام کے حوالے سے ہندوستان کے عام مسلمانوں میں اضطراب اور تشویش پیدا ہوئی تو مختلف دینی حلقوں نے مسلمانوں کے جذبات سعودی حکومت تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔ ان میں ایک لکھنو کی جمعیۃ خدام الحرمین بھی تھی جو فرنگی محل کے معروف علمی مرکز کے سربراہ حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی کوششوں سے قائم ہوئی۔ اس کا ایک وفد 1926ء میں حجاز مقدس گیا اور سعودی مملکت کے بانی شاہ عبد العزیز بن سعود سے ملاقات کر کے انہیں ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا۔ اس وفد کے دورے کی رپورٹ جمعیۃ خدام الحرمین کے سیکرٹری جنرل شیخ مشیر حسین قدوائی بار ایٹ لاء نے لکھنو سے شائع کی جو اس وقت میرے سامنے ہے۔ اور اس میں ایک ضمیمہ کے طور پر اس معاہدہ کا متن عربی اور اردو زبانوں میں درج ہے جو 1915ء میں کویت میں شاہ عبد العزیز بن سعود اور برطانوی نمائندہ لیفٹیننٹ کرنل سر پرسی کاکس کے درمیان تحریری طور پر طے پایا۔ اس معاہدے کے بعد آل سعود کے سربراہ شاہ عبد العزیز کو برطانوی حکومت کی طرف سے ’’ستارہ ہند‘‘ کے سرکاری اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ اور سرپرسی کاکس نے شاہ عبد العزیز کے سینے پر ’’ستارہ ہند‘‘ کا تمغہ آویزاں کرنے کے بعد جو گروپ فوٹو کھنچوایا وہ بھی اس رپورٹ میں موجود ہے۔

اس پس منظر میں معاہدے  کا متن ملاحظہ فرمائیے:

’’چونکہ حکومت عالیہ برطانیہ اور نجد و احساء و قطیف و جبیل اور اس کے ملحق مقامات کے حاکم عبد العزیز بن عبد الرحمان بن فیصل السعود کی خود اور اپنے ورثاء اور قبائل کی طرف سے ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ طرفین (برطانیہ اور ابن سعود) میں دوستانہ راہ و رسم کی تجدید ہو جائے اور فریقین کے اغراض و مقاصد کے مضبوط کرنے کے لیے عمدہ تصفیہ ہو جائے، اس لیے حکومت برطانیہ نے سرپرسی کاکس بالقابہ نمائندہ برطانیہ متعینہ خلیج فارس کو سلطان ابن سعود سے مذکورہ بالا مقصد کا ایک معاہدہ طے کرنے کے لیے اپنا وکیل مقرر کیا۔ چنانچہ سر مذکور اور ابن سعود میں حسب ذیل امور پر معاہدہ طے ہوا کہ:

دفعہ نمبر ۱

حکومت برطانیہ اعتراف کرتی ہے اور اس کو اس امر کے تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں ہے کہ علاقہ جات نجد، احساء، قطیف، جبیل اور خلیج فارس کے ملحقہ مقامات جن کی حد بندی بعد میں ہوگی، یہ سلطان ابن سعود کے علاقہ جات ہیں۔ اور حکومت برطانیہ اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ ان مقامات کے مستقل حاکم سلطان مذکور اور ان کے بیٹے اور ان کے جانشین ہیں۔ ان کو ان ممالک اور قبائل پر خود مختار حکومت حاصل ہے اور اس کے بعد اس کے لڑکے بالے ان کے صحیح وارث ہوں گے۔ لیکن ان ورثاء میں سے ایک کو سلطنت کے لیے انتخاب و تقرر کی یہ شرط ہوگی کہ وہ شخص سلطنت برطانیہ کا تھوڑا سا بھی مخالف نہ ہو اور مشروط مندرجہ معاہدہ ہذا کی رو سے شخص مذکور برطانیہ کے خلاف نہ ہو۔

دفعہ نمبر ۲

اگر کوئی اجنبی طاقت سلطان ابن سعود اور اس کے ورثاء کے ممالک پر حکومت برطانیہ کے مشورے کے بغیر یا اس کو ابن سعود کے ساتھ مشورہ کرنے کی فرصت دیے بغیر حملہ آور ہوگی تو حکومت برطانیہ ابن سعود سے مشورہ کر کے حملہ آور حکومت کے خلاف ابن سعود کو امداد دے گی اور اپنے حالات ملحوظ رکھ کر ایسی تدابیر اختیار کرے گی جن سے ابن سعود کے اغراض و مقاصد اور اس کے ممالک کی بہبود محفوظ رہ سکے۔

دفعہ نمبر ۳

ابن سعود اس معاہدہ پر راضی ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ کسی غیر قوم یا کسی سلطنت کے ساتھ کسی قسم کی گفتگو یا سمجھوتہ اور معاہدہ کرنے سے پرہیز کرے گا۔ مالک مذکور بالا کے متعلق اگر کوئی سلطنت دخل دے گی تو ابن سعود فورًا حکومت برطانیہ کو اس امر کی اطلاع دے گا۔

دفعہ نمبر ۴

ابن سعود عہد کرتا ہے کہ وہ اس سے پھرے گا نہیں اور وہ ممالک مذکورہ یا اس کے کسی حصے کو حکومت برطانیہ سے مشورے کے بغیر بیچنے، رہن رکھنے، کرائے پر دینے یا اور کسی قسم کے تصرف کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ اور اس کو اس امر کا اختیار نہ ہوگا کہ وہ کسی حکومت کی رعایا کو برطانیہ کی مرضی کے خلاف ممالک مذکورہ بالا میں کوئی رعایت یا لائسنس دے۔ ابن سعود وعدہ کرتا ہے کہ وہ حکومت برطانیہ کے ارشاد کی تعمیل کرے گا اور اس امر کی کوئی قید نہیں ہے کہ وہ ارشاد اس کے مفاد کے خلاف ہو یا موافق۔

دفعہ نمبر ۵

ابن سعود عہد کرتا ہے کہ مقامات مقدسہ کے لیے جو راستے سلطنت سے گزرتے ہیں وہ باقی رہیں گے اور ابن سعود حجاج کی آمد و رفت کے زمانے میں ان کی حفاظت کرے گا۔

دفعہ نمبر ۶

ابن سعود اپنے پیشرو سلاطین نجد کی طرح عہد کرتا ہے کہ وہ علاقہ جات کویت، بحرین، علاقہ جات روسائے عرب، عمان کے ان ساحلی علاقات جات اور دیگر ملحقہ مقامات کے متعلق جو برطانوی حمایت میں ہیں، اور جن کے حکومت برطانیہ کے ساتھ معاہدانہ تعلقات ہیں، کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا۔ ان ریاستوں کی حد بندی بعد میں ہوگی جو برطانیہ سے معاہدہ کر چکی ہیں۔

دفعہ نمبر ۷

اس کے علاوہ حکومت برطانیہ اور ابن سعود اس امر پر راضی ہیں کہ طرفین کے بقیہ باہمی معاملات کے لیے ایک اور مفصل عہد نامہ مرتب و منظور کیا جائے گا۔

یہ معاہدہ کویت میں 26 نومبر 1915ء کو طے پایا۔ اس پر سلطان عبد العزیز بن سعود اور برطانوی نمائندہ بی زیڈ کاکس کے دستخط ہیں۔ اور اس کی توثیق ہندوستان میں برطانوی وائسرائے چیمس فورڈ نے 18 مئی 1916ء کو شملہ میں اس پر دستخط ثبت کر کے کی۔ اور اس پر سیکرٹری پولیٹیکل اینڈ فارن ڈیپارٹمنٹ حکومت ہند رے ایچ گرانٹ کے بھی دستخط ہیں۔

اس معاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت برطانیہ نے شریف مکہ کے خاندان اور آل سعود سے ایک ہی سال کے دوران یعنی 1915ء میں دو الگ الگ معاہدے کیے۔ اور شاید ابتداء میں اس کا پروگرام حجاز اور نجد میں دو الگ الگ حکومتوں کو قائم رکھنے کا تھا، لیکن شریف مکہ کو خلافت عثمانیہ سے بغاوت میں کامیابی کے بعد اپنے لیے زیادہ مفید نہ سمجھتے ہوئے حکومت برطانیہ کا ارادہ بدل گیا اور حجاز مقدس بھی آل سعود کی تحویل میں دے دیا گیا[2]۔‘‘

اس برطانوی اور سعودی معاہدے کو بیان کرنے والی درج بالا سطور لفظ بلفظ نقل کی گئی ہیں، ان سطور کو لکھنے والے ایک دیوبندی مکتب فکر کے جید عالم اور انکے معروف فرزند کی زبانی  مسلمان حکومتوں کی تباہی میں آل سعود کے بنیادی کردار اور برطانوی حکومت کا اس خاندان پر اعتماد  ہونا  بہت  اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے، خود  جناب زاہد الراشدی کے ذریعے اس سارے قضیے کا اقرار کرنے کے بعد شاید اور کسی دلیل اور ثبوت کی ضرورت نہ پڑے، فقط اتنا ہی نہیں بلکہ راشدی صاحب واشگاف الفاظ میں آل سعود کا  عالمی سطح پر برطانوی اور امریکی حکومتوں کے مفادات کا محافظ یعنی مہذبانہ الفاظ میں ’’نوکر‘‘ ہونے کا بھی اقرار کر چکے ہیں، ذیل میں موصوف کی تحریر کردہ عبارات پر ذرا توجہ فرمائیں:

جہاں تک ’’آل سعود‘‘ کے تاریخی پس منظر اور سیاسی کردار کا تعلق ہے ہم نے کچھ عرصہ قبل پاکستان میں ہی اس کا مختصر تذکرہ کیا تھا اور سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز اور لارڈ چیمسفورڈ کے درمیان ہونے والے اس تیرہ نکاتی معاہدے کا ذکر بھی کیا تھا جس میں برطانیہ عظمیٰ نے سعودی عرب میں آل سعود کے نسل در نسل حکمرانی کے حق کو تسلیم کیا تھا، جبکہ آل سعود کی طرف سے عالمی سطح پر برطانوی مفادات کے خلاف نہ جانے کا عہد کیا گیا تھا اور اس معاہدے کے نتیجے میں سعودی عرب کی ریاست وجود میں آئی تھی۔ اس میں صرف یہ فرق آیا ہے کہ عالمی سطح پر برطانیہ کی جگہ امریکہ نے لے لی ہے جبکہ باقی معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں [3]۔

حال میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے سعودیہ اور  اسرائیل کے ’’مشترکہ اہداف‘‘ کی موجودگی کے بیان سے بھی آل سعود کی برطانیہ اور اسرائیل سے  خصوصی تعلقات کا اندازہ لگایا جا سکتا  ہے[4]، جبکہ اس سے پہلے اسرائیلی وزیر توانائی کے مطابق غاصب صہیونی ریاست اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خفیہ روابط کی موجودگی کے اعلان نے یہ تعلقات طشت از بام کر دیئے ہیں [5]۔

 

 

[1]۔ روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۲۴ نومبر ۱۹۹۹ء
http://zahidrashdi.org/657 ۔[2]
http://zahidrashdi.org/293۔ [3]
https://bit.ly/2GOIWKr ۔ [4]
https://bbc.in/2EfJ2cd ۔ [5]