اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی قدر کی جائے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ خود کو قیمتی بنائیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ اور رسول اکرمؐ کی بارگاہ میں عزت پائیں، پوری دنیا کی قوموں کے روبرو محترم بن جائیں تو لازماً اس بنیاد کو زندہ کریں۔ اگر آج رسول اللہؐ ظاہراً ہمارے درمیان زندہ اور موجود ہوتے، تو آپؐ آج کیا کرتے؟ سب سے زیادہ کون سے مسئلے کے بارے میں فکرمند ہوتے؟ واللہِ و باللہِ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج رسول اکرمؐ اپنی تربتِ مقدس میں (فلسطین پر) صیہونیوں کے مظالم کی وجہ سے پریشان ہوں گے۔ یہ دو جمع دو جیسا سیدھا سا مسئلہ ہے۔ اگر کسی نے اس بارے میں منہ بند رکھا تو اس نے گناہ کیا ہے۔ اگر میں اس بارے میں بات نہ کروں تو واللہ میں گنہ گار ہوں اور ہر خطیب (و ذاکر) و واعظ جو اس مسئلے پر خاموش رہا، وہ گناہگار ہے۔ اگر آج امام حسینؑ ظاہراً ہمارے درمیان موجود ہوتے تو ہم سے فرماتے کہ: اگر میری عزاداری کرنا چاہتے ہو، میری خاطر ماتم کرنا چاہتے ہو تو آج تمہارا نعرہ فلسطین ہونا چاہیے۔۔۔تیرہ، چودہ سو سال پرانا شمر واصل جہنم ہو چکا ہے، آج کے شمر کو پہچانو۔ آج لازماً تمہارے در و دیوار فلسطین کے نعروں سے گونجنے چاہیئے ہیں۔
کتاب حماسہ حسینی، موضوع قضیہ فلسطین