شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے شہر پاراچنار کے نواحی گاؤں پیواڑ میں 1946 ء میں ایک مذہبی گھرانے میں متولد ہوئے، آپ کا سلسلۂ نسب شاہ شرف بو علی قلندر بن سید فخر ولی تک پہنچتا ہے جن کا نسب شرف الدین بوعلی شاہ قلندر ابن ابوالحسن فخر عالم تک پہنچتا ہے۔ بو علی شاہ کا مدفن ہندوستان کے شہر پانی پت اور فخر عالم کا مدفن پاراچنار کے نواحی گاؤں کڑمان میں ہے۔ چونکہ ان کا سلسلۂ نسب حسین الاصغر ابن علی بن الحسینؑ تک پہنچتا ہے، لہذا ان کا خاندان “حسینی” کے عنوان سے مشہور ہے۔آپ کے آباء و اجداد جن میں سے متعدد افراد علمائے دین اور مبلغین تھے ،اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج کی غرض سے پیواڑ اور قریبی علاقوں میں سرگرم عمل رہے۔

ابتدائی تعلیم:

شہید عارف حسین الحسینی نےقرآن مجیداور ابتدائی دینی تعلیمات اپنے والدِ گرامی سےحاصل کیں،پرائمری،مڈل اور ہائی اسکول کی تعلیم پاراچنارکے ایک اسکول سے حاصل کی اورسن1964ءمیں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد تعلیمات محمدوآلِ محمد سے روشناس ہونے کے لیے مدرسہ جعفریہ پاراچنارمیں داخلہ لے لیا،جہاں ایک مقامی عالمِ دین حاجی غلام جعفرسے کسبِ فیض فرمایا اورمختصر عرصے میں ہی مقدمات کی تعلیم(عربی ادبیات) تکمیل فرمائی۔ شہید حسینی ابتدائی دینی و مروجہ تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے بعض دینی مدارس جیسے جامعۃ المنتظرلاہورمیں زیرتعلیم رہے۔

حصولِ علم کے لیے ہجرت:

حوزہ علمیہ نجف اشرف:

شہید علامہ عارف حسین الحسینی1967 ء میں علومِ آلِ محمدؐ میں خود کو سیراب کرنے کے لئے حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق تشریف لے گئے نجف اشرف جو کہ اُس وقت تشیع کا مرکز اور سب سےبڑا حوزہ علمیہ تھا،حرم امیرالمؤمنین امام علیؑ ابنِ ابی طالبؑ اور دیگر مزارات ِمقدسہ اور برجستہ اساتید و علماء وعرفاء کی موجودگی حوزہ علمیہ نجف کو دیگر حوزوں سے ممتاز بنا دیتی تھی۔ آپ نے عربی ادب کے مزید مراحل طے فرمانے کے لیے معروف ترین استادمدرس افغانی کی شاگردی اختیار فرمائی اورعربی ادب کے ساتھ ساتھ فقہ اور اصول فقہ کے اعلیٰ مدارج بھی نامور اور برجستہ علماء کی خدمت میں طے فرمائے۔
نجف اشرف میں ہی عارف باللہ شہیدِمحراب آیت اللہ مدنی رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ دروس میں شرکت کا آغاز فرمایااور انہی کے توسط سے ہی امام خمینی ؒ کی برجستہ شخصیت اور انقلابی فعالیت سے آگاہ ہوئے،آپ باقاعدگی سے امام خمینیؒ کے دروس، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت فرمانے لگے۔یہ آگاہی اور آشنائی آپ کے باطنی عشق وجذبےکونمایاں کرنے کا سبب بنی،ایک شعلہ،ایک آتش جو آپ کے وجود ِ مبارک میں پیدا ہوئی وہ تا شہادت باقی رہی نہ صرف باقی رہی بلکہ اپنے عشق کے پروانوں میں روز بروز اضافے کا سبب بنی۔معلمِ اسلام محمدی امام خمینی ؒ کے الٰہی افکار و تعلیمات نے آپ کو ابوذری کردار کا حامل بنادیا اورآپ نے عراق میں ہی شعور وآگاہی اور انقلابی سرگرمیوں کا آغاز فرمایا۔جس کے نتیجے میں عراق کی بعثی جابر حکومت نے آپ کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور کچھ عرصے بعد ہی ملک بدر کردیا۔

نجف سے وطن واپسی:

حوزہ علمیہ نجف اشرف سے ملک بدر کیے جانے کے بعد آپ کئی مہینوں تک پاراچنار میں ہی دین حقیقی کی تبلیغ کے فرائض انجام دیتے رہےاور انہی دِنوں میں ہی اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔

حوزہ علمیہ قم المقدس:

شہید عارف حسین الحسینی کے اندر موجود علومِ آلِ محمدؐکی تشنگی نے آپ کومزید علم کے نورسے مزین ہونے کے لیے 1974ءمیں ایران کے شہر قم المقدسہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیا،امام امت روح اللہ خمینیؒ کی روشن کی ہوئی یہ شمع یعنی شہید عارف حسین الحسینی اسلامِ محمدی کے عاشقوں کو ہدایت کے نور سے منورکرتے ہوئے دوبارہ حوزہ علمیہ نجف اشرف جانے کا قصد فرماتے ہیں لیکن بعثی حکومت ویزا دینے سے انکار کردیتی ہے لہٰذا آپ حوزہ علمیہ قم المقدس کا رُخ فرماتےہیں اور قم المقدسہ کے برجستہ علماءواساتید سے شرف یاب ہوتے ہیں۔ آپ علم و تقوی کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ قم میں امام خمینیؒ کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے میں رہے چنانچہ ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای اور آیت اللہ ہاشمی نژاد کے خطبات و دروس میں بھی شرکت فرماتے رہے۔

اساتیدکے نام:

استادحاجی غلام جعفر،استادمدرس افغانی،شہید محراب آیت اللہ مدنی،شہیداستاد مرتضیٰ مطہری،آیاتِ عظام مکارم شیرازی،وحید خراسانی،میرزاجواد تبریزی،محسن حرم پناہی،سیدکاظم حائری۔

تحصیل کردہ علوم:

عربی ادبیات ،فلسفہ وعرفان،کلام،فقہ،اصول اور تفسیر۔

زبانوں پر عبور:

عربی ،فارسی،اردو،پشتو۔

تعلیمی،دینی وسیاسی وظائف:

حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق سے ملک بدرکئے جانے کے بعد شہید عارف حسین الحسینی نے 1974ءمیں دس مہینے تک پارا چنار میں ہی درس وتدریس ،اسلام محمدی کی تبلیغ اور امریکی اسلام کے خلاف اپنے تبلیغی فریضے کو انجام دیا اِس کے بعد دوبارہ قم المقدسہ تشریف لے گئے۔1979ءمیں حوزہ علمیہ قم المقدس ایران سے ملک بدر کئے جانے کے بعدآپ کو پاکستان واپس جاناپڑا اور آپ پاکستان میں مدرسہ جعفریہ پاراچنارمیں تدریس میں مشغول ہوگئے ۔آپ مدرسہ جعفریہ پاراچنارسےپشاور جاکراخلاقِ اسلامی کا درس دیا کرتے تھے۔
قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین قبلہ کی رحلت کے بعد10 فروری 1984 ءکوپاکستان کےنامورو برجستہ علماء کرام کے شدید اصرار پرشہید عارف حسین الحسینی نےملت جعفریہ پاکستان کی قیادت کے فرائض سنبھالے۔علامہ سید عارف حسین الحسینی نے ساڑھے چار سال کے اِ س مختصر عرصے میں قوم کی رہنمائی فرمائی اور آپ نے جو اِس کم وقت میں کام انجام دیے اُن کے اثرات آج بھی ملت جعفریہ کے معاشرتی تشخص میں نمایاں ہیں۔ لاہور، ملتان، ڈیرہ غازی خان، فیصل آباد ، ملتان اورچنیوٹ میں ہونے والی عظیم الشان قرآن وسنت کانفرنسوںمیں شہید نے کئی مقامات پر اسلامِ محمدیؐ کے نفاذاوراور انسانیت و اسلام دُشمن طاقتوں کے خلاف جدوجہد پر زور دیا۔
شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے ۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی نے اپنے دور قیادت میں اسلامی امت کے اتحاد و وحدت کیلئے بھرپور کاوشیں کیں اور مختلف فرقوں کے ماننے والوں کو اسلام کے نام اور مشترکات پر جمع ہونے کی دعوت دی ۔ آپ فکر امام خمینیؒ کے خالص اور سچے پیرو کارتھے اسی لیے شہید عارف حسین الحسینی پاکستان کو عالمی استعمار کے چنگل سے آزادی دلوانا چاہتے تھے ۔آپ امت مسلمہ کے مسائل کا حل اسلامی انقلاب اور افکار و سیرت امام خمینی ؒ میں سمجھتے تھے کیونکہ امام خمینیؒ کے افکاراورسیرت، قرآن اور سیرت ِمعصومین علیہم الصلاۃ والسلام کی سیرت کاہی عملی نمونہ تھے۔شہید عارف حسین الحسینیؒ نے مستضعفین و محرومین کی حمایت اوراُن کی مشکلات اور عالمی شیاطین کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے انتھک محنت کی۔
آپ، شہید قائد کو پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے بانی کہہ سکتے ہیں علامہ سید عارف حسین الحسینی نے اپنے دور قیادت میں اُمت مسلمہ کےعملی اتحاد و وحدت کیلئے بھرپور کاوشیں کیں اور مختلف فرقوں کے ماننے والوں کو اسلام کے نام اور مشترکات پر جمع ہونے کی دعوت دی ۔وہ ہمیشہ اپنے ہمراہ کسی نہ کسی اہل سنت عالم دین کو دورہ جات میں ساتھ رکھتے تھے، ان کا اتحاد و وحدت پر موقف بہت دوٹوک ہوتا تھا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینیؒ نےآپ کی شہادت پر ایک اعلیٰ وفد آیۃ اللہ جنتی کی قیادت میں پاکستان بھیجا جنہوں نے ان کا جنازہ پڑھایا اور امام خمینیؒ نے اس حوالے سےاپنا تاریخی تعزیتی پیغام بھی جاری کیا، جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’’میں آج اپنے عزیز فرزند سے محروم ہو گیا ہوں اور پاکستان کے عوام کو تاکید کی کہ وہ علامہ عارف حسین الحسینی کے افکار کو زندہ رکھیں۔‘‘ شہید کے افکار کو سمجھنے کیلئے شہید کے افکار، شہید کی سیاسی، دینی واجتمائی زندگی، مجالس عزا میں شہید کے خطبات و دیگر موضوعات پر العارف اکیڈمی نے کئی کتب شائع کی ہیں جنہیں پڑھے بغیر شاید کوئی بھی ان افکار کو سمجھنے کا دعوی نہیں کر سکتاکیونکہ شہید کے افکار سے درست آشنائی کےبغیر شہید کے افکار کو سمجھنا اوراُن کے پیروکار ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
آج شہید کے افکار پاکستان میں مسلمانوں اور بالخصوص اہل تشیع کے سرکردہ رہنماؤں کے لئے نمونہ عمل ہونے چاہئیں کیونکہ یہ افکار امام خمینیؒ کے تائید شدہ و تجربہ شدہ ہیں۔ اِن افکار کے علاوہ تمام افکار غیر تائید شدہ اور غیر تجربہ شدہ ہیں۔

شہادت:

شہید عارف حسین الحسینی اسلامِ محمدی کی تبلیغ اور عالمی استکبار و استعمار کے خلاف قیام کرنے اور دنیا کے مظلومین و محرومین کی حمایت اور اتحاد بین المسلمین کی عملی کوششوں کی وجہ سے عوام الناس کی محبوب شخصیت بن چکے تھے اور اِسی وجہ سے عالمی استکبار اور اُن کے علاقائی پٹھوؤں کی آنکھ کا کانٹابن گئے تھے۔آپ کی مسلسل فعالیت اورانتھک محنت کی وجہ سےعالمی غنڈے اور اُن کے چیلے خوف زدہ ہوگئے لہٰذا اُنہوں نے آپ کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے اپنے مضموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کا عہد کرلیااور ایک عالمی سازش کے تحت 5 اگست 1988ء کوبوقت فجر جب آپ پشاور میں اپنے مدرسے”دارالمعارف الاسلامیہ”میں صبح کی نماز کے لیے آمادگی فرمارہے تھے توزمانے کے ایک ابنِ ملجم صفت ،ایک انسان نما حیوان نےاپنے عالمی وعلاقائی شیطانی آقاؤں کے حکم پراِس عارف بااللہ اور سفیر ِولایت کے خونِ مقدس سے اپنےپلید ہاتھوں کو آلودہ کرلیا اور شہیداپنے مولا وامیر حضرت علی ابنِ ابی طالبؑ کی سنت پر گامزن ہوکر فزتُ بِرب الکعبہ کہتے ہوئےاپنے معشوقِ حقیقی سے جاملےاورا پنے اِس عقیدے “شہادت ہمارا وہ ورثہ ہے جو ہماری ماؤں نے ہمیں دودھ میں پلایا ہے”کی گواہی اپنے پاک لہو سے دےدی۔

امام خمینیؒ کا پیغام:

امام خمینیؒ نے شہید کے جنازے میں شرکت کے لئے ایک وفد پاکستان روانہ کیا اور ان کی شہادت کے موقع پر پاکستان کے علماء اور قوم کے نام ایک مفصل پیغام جاری فرمایا جس میں اِن الفاظ میں شہید راہِ حق،سفیرِ ولایت علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت پر تعزیت اور اِن کے پاکیزہ افکار کی تائید فرمائی: ” پاکستان کی شریف اورمسلمان قوم ، جو بےشک انقلابی اور اسلامی اقدار کی وفادار قوم رہی ہے اور ہمارے ساتھ پُرخلوص انقلابی، اعتقادی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک ہے،(پاکستانی قوم )کو اس شہیدکے افکار کو زندہ رکھنا چاہئے اورشیطانی چیلوں کو خالص محمدی اسلام کا راستہ روکنے کا موقع نہیں دینا چاہئیے۔۔۔ میں اپنے عزیز بیٹے سے محروم ہوگیا ہوں”
(اقتباس ازصحیفہ امام ج-21، ص-119تا121)