عرفانِ اسلامی کیا ہے۔۔۔؟ عرفان اور تصوف میں کیا فرق ہے۔۔۔؟آیا عرفانِ اسلامی ایک جدید موضوع ہے۔۔۔؟عرفان یا روحانیت کے بارے میں آئمہ علیہم السلام کی تعلیمات کیا کہتی ہیں ۔۔۔؟نظری اور عملی عرفان میں کیا فرق ہے۔۔۔؟ آج کی دنیا میں جعلی عرفان یعنی روحانیت کا پرچار کیوں کیا جارہا ہے۔۔۔؟ بے عمل عاملوں اور گمراہ صوفیوں میں اور ایک حقیقی عارف میں کیا فرق پایا جاتا ہے۔۔۔؟ آیا عرفان انسان کی فطری ضرورت ہے۔۔۔؟ عصرِ حاضر کا انسان کیوں بے قراری اور بے چینی کا شکار نظر آتا ہے۔۔۔؟
عرفانِ اسلامی سے آشنائی کے لیے ہمارے اِس قسط وار مقالے کا ضرور مطالعہ کیجئے۔
عصر حاضر میں بڑھتی ہوئی مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان گذشتہ زمانوں کی نسبت زیادہ سکون واطمینان کے فقدان کا شکار نظرآتاہے،کیونکہ انسان احساسات اورجذبات رکھنے والی مخلوق ہے۔ انسانی احساسات کہ جن کا تعلق انسان کی روح وقلب سے ہے اگراِن احساسات وجذبات کوسکون واطمینان میسرنہ ہوتوانسان ہمیشہ بےچین اورمضطرب نظر آتاہے اوراُسے اپنی زندگی بے معنی اوربے مقصدنظر آنے لگتی ہے ۔
درحقیقت انسان اپنی فطرت کے برعکس چل رہا ہوتاہے اوراپنی فطری آوازکو درست طریقے سے سُن نہیں پارہا ہوتا جس کی وجہ سے انسان بے چین ومضطرب دِکھائی دیتاہے۔اِس انسانی کیفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آج انسانیت کوحقیقت سے اور سیدھے راستے سے گمراہ کرنے والے شیطانی اورمنحرف گروہ اپنے انفرادی اورسیاسی مفادات کی خاطر اور یاانسانیت کوصحیح راستے پر دیکھنے کی تاب نہ رکھنے والے شیطان صفت لوگ، اِس انسانی فطری آوازکوغلط رُخ دینے کی خاطر روحانیت ومعنویت کالبادہ اوڑھے انسانیت کوگمراہ کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
حقیقی روحانیت اور معنویت سے دور کرنے کے لیے جعلی روحانیت کاپرچار،آج ترقی یافتہ ممالک سے لے کر پسماندہ ممالک کے ہر طبقے میں نظر آتاہے، تاکہ اپنی فطرت کوگم کیاہوامضطرب وبے چین انسان اِن غلط اورجعلی راستوں پر چل پڑے اوراپنی فطرت سے مزیدکوسوں دورہوتاچلاجا ئے اورفریب کھاجا ئے۔درحقیقت دین و روحانیت انسان کی فطری ضرورت ہے سرمایہ دار اور مادیت پرست نطاموں میں عرفان و معنویت کو انسانی بنیادی اور فطری ضرورت کے طور پر شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے،اور اِسی لیے آج عرفانی فرقے اور عرفان پر لکھی جانے والی کتابوں کی سب سے زیادہ فروش اِنہی ممالک میں پائی جاتی ہے اور لوگ تیزی سے اِس طرف متوجہ ہوتے نظر آرہے ہیں ۔
ہم اِس مقالے میں مختصرطورپرقارئین کی خدمت میں یہ بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ عرفانِ اسلامی ہے کیا ؟آیا اسلام میں عرفان ایک نیا موضوع ہے یا اِس کی جڑیں قرآن واحادیث اوراَئمہ علیہم اسلام اوراولیاءاللہ کی تعلیمات اورسیرت میں پائی جاتی ہیں؟اورمختصراًعرفان وروحانیت کے نام پردنیامیں تیزی سے پھیلائے جانے والےجعلی اور گمراہ کُن نام نہاد روحانی یاعرفانی سلسلوں کا متعارف کیاجائے گا۔تاکہ آگاہی اورشعورکے ساتھ حق وحقیقت کی تشنگی رکھنے والے مضطرب وبے قرارانسانوں کودرست راستے کے انتخاب میں مددمل سکے اور انسان درست راستے کا انتخاب کرکے ہدایت واطمینان کے صاف وشفاف چشمے تک پہنچ سکےاورحق وحقیقت سے دُور وگمراہ کرنے والے اور تاریکی کی طرف دھکیلنے والے سلسلوں سے خود کومحفوظ بنا سکے۔
عرفان اورتصوف کامفہوم:
اسلامی عرفان یاروحانیت کےبارے میں گفتگوسے پہلے یہاں پرمناسب ہے کہ ہم لفظِ’’عرفان یاروحانیت اورتصوف ‘‘کی وضاحت کردیں تاکہ اِ س موضوع کو درست طریقے سے سمجھاجا سکے۔’’عرفان‘‘ کالفظ جوکہ’’ معرفت‘‘کے لفظ کے خانوادہ سے تعلق رکھتاہے جس کے معنی لغت میں پہچاننایاشناخت کےہیں اوراِس کے اصطلاحی معنی ایک خاص پہچان یاشناخت سے مختص ہے جوحِس،تجربے،عقل یانقل سے حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ اندرونی مشاہدے اورباطنی طورپر درک کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
عرفان کی دواقسام بیان کی گئی ہیں:1عرفان عملی 2۔عرفان نظری
عرفانِ عملی:عرفانِ عملی خاص ریاضتوں پرمشتمل ہے،نفس کوبرائیوں سے دُوررکھنے اورپاک کرنے کے لیے عملی اقدامات انجام دینےکوعرفانِ عملی یا سیروسلوکِ عملی کہاجاتاہے کہ جس میں ایک انسان خوداپنے ساتھ،اِس جہان کے ساتھ اورخداکے ساتھ ارتباط اورذمہ داریوں کا تعین کرتاہے، گو ایک دستور العمل رکھتاہے۔
عرفان نظری: عرفانِ نظری مشاہدات کوبیان کرناعقلی طورپرمشاہدات کی تبیین کرنااوراِن موضوعات کی وضاحت کرنا،عرفانی مطالب کوبیان کرنا یعنی خوداپنے بارے میں،جہان اورخداکے بارے میں عارف کی نظرکہ وہ خودکو،اِس جہان کواورخداکوکس طرح سے دیکھتاہے۔
تصوف: لفظِ تصوف کے بہت سارے معنی بیان کئے گئے ہیں لیکن جومعنی زیادہ مشہورہے وہ یہ ہے کہ یہ لفظ’’صوف‘‘ سے لیاگیاہے کہ جس کےمعنی’’اونی لباس‘‘ کے ہیں جوسخت زندگی گزارنے،بدن کی پرورش اورلذت پرستی سے دُوری کے معنوں میں لیاجاتاہے یعنی اونی لباس دنیوی لذتوں سے دوری اورسخت زندگی جھیلنےکی ایک نشانی ہے ۔
عرفان وتصوف میں فرق:عرفان اورتصوف کوبہت سی کتابوں میں ایک ہی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے یہ دومختلف الفاظ ہیں لیکن ایک حقیقت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کئے جاتےہیں۔ بعض دانشمندان، تصوف کو عرفانِ اسلامی کے مترادف ومساوی سمجھتے ہیں۔آج مغربی دانشوروں اوراسلامی دانشوروں میں یہ اصطلاح رائج ہے جب یہ لوگ تصوف یاصوفی ازم کی بات کرتے ہیں تواِن کی مُراد عرفانِ اسلامی ہی ہوتی ہے البتہ شیعہ معاشرے میں تصوف کے معنی کو منفی طورپرلیاجاتاہے اورعرفان کومثبت معنوں میں سمجھا جاتاہےاورتصوف کو جعلی یاجھوٹے عرفانی سلسلوں کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔کیونکہ وہ لوگ جو صوفی کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے اُن میں سے اکثر وبیشترنہ فقط خود شریعت پر عمل کرتے تھے بلکہ اپنے مریدوں کو بھی شریعت پر عمل سے روکتے تھے بلکہ بعض اُمورمیں شریعت کی خلاف ورزی کرتے تھے اورحلال چیزوں کو حرام اورحرام کوحلال قراردیتے تھے۔معصومین علیہم السلام کی روایات میں ایسے افرادکی سخت مخالفت اورمذمت کی گئی ہے کیونکہ آئمہ علیہم السلام کا سامنااُس زمانے میں صوفیوں کے اِسی بے عمل اورگمراہ طبقے سے بھی تھا۔اِیسےصوفیوں اورہندؤجادوگروں اورعجائبات کامظاہرہ کرنے والوں میں بہت ساری چیزیں مشترک پائی جاتی ہیں ۔ایسے افرادسخت ریاضتوں اورمشقتوں کے ذریعے کچھ تعجب انگیز کام انجام دینے کی قوت حاصل کرلیتے ہیں۔البتہ اگرتصوف کو عرفانِ اسلامی کے معنوں میں لیا جائے اوراِس کی تعریف کی جائے توپھردونوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گااوردونوں ایک ہی معنوں میں شمار کئے جائیں گے۔