فتنوں کے دوران اگر فتنہ گر عناصر کی جلد شناخت ہو جائے اور ان کے ارادوں کا پتہ چل جائے تو لوگ حساس ہو جاتے ہیں اور محتاط ہوتے ہوئے اپنی حفاظت کرنے لگتے ہیں لیکن فتنوں کی نوعیت راکھ کےنیچے موجود آگ کی طرح آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھائے اور سماج اور معاشرے میں کسی قسم کی حساسیت پیدا نہ کرے تو آخر کار اس سے معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے اور لوگ حساس اور محتاط نہیں ہوتے، خاص طور پر ثقافتی فتنوں میں جہاں قدریں رفتہ رفتہ کمرنگ ہوتی جاتی ہیں۔
فتنہ اور فتنہ انگیزی سے متعلق مرحوم آیت اللہ مصباح یزدی کے بیانات سے اقتباس